مقالات

عورت کا مقام نہج البلاغہ کی نگاہ میں (حصه دوم)

اولاد کی تربیت

        ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دنیا کے نظام میں کونسا ایسا کام ہے جس کی ذمہ داری اللہ نے عورتوں کو دی ہے یا یہ کہ عورتوں کو کس لئے خلق فرمایا ہے ؟اور کس مقصد کی بنا پر ان کو خاص جسم و روح عطا کی ہے ؟اور ایسی کون سی خاص چیزیں اس مقصد کی تکمیل کیلئے انہیں بخشی ہے؟اگر ہم ایک کلمہ میں اس ہدف و رسالت کا خلاصہ کرنا چاہے تو وہ عورت کا ’’ماں‘‘ہونا ہے یہ پاک کلہ خودگرانبھا جواہرات و مرواید و مخزن وضع اور برکات وفیض کا سرچشمہ ہے اللہ نے ماں ہونے کی بنا پر بھی عورت کو خاص روح و جسم عطا کیا ہے عورت ہی انسان کو آمادہ کرتی ہے کہ اس کا کیا وظیفہ (ذمہ داری) ہے اگر ماں کا نقش نہ ہوتا تو کوئی بھی نقش وجود میں نہ آتا عورت عالم ہستی کی ضرورت ہے ۔اللہ نے اس عظیم کائنات کو خلق کیا اور ایک عظیم و بلند تر مقام عورت کیلئے قرار دیا اور یہ اس کا ماں ہونا ہے اور ماں کو وہ تمام وسائل واسباب عنایت کئے جو اس نقش عظیم کو پورا کرنے کیلئے ضروری و لازم تھے۔پتہ یہ چلاکہ اللہ نے عورت کی طبیعی شرائط وخاص خصوصیات کے ساتھ خلق کیاکہ اگر یہ عورت نہ ہوتی تو انسان بھی وجود میں نہ آتا(۴)

        اولاد کی تربیت ایک عظیم فریضہ ہے جو کہ اللہ نے والدین مخصوصا ماں کو یہ ذمہ داری دی ہے عورت بھی اپنے کمال قدرت کے ذریعے اس عظیم ذمہ داری کو انجام دیتی ہے بچہ ماں کی تمام صفات ،گفتار،و رفتار ہر چیز پر غور کرتا ہے اور ہر چیز اپنی ماں سے اپناتا ہے بچہ کیلئے پہلی درسگاہ ماں کی آغوش ہے عورت بھی تربیت کے مرحلہ میں ایسی قدرت و صلاحیت کی حامل ہے کہ اپنی تمام صفات کو باسانی اپنے بچوں میں منتقل کرسکتی ہے اور بچہ بھی بغیر چو و چرا کے ان صفات کو قبول کرلیتا ہے اور انہیں اپنے لئے سر مشق و نمونہ قرار دیتا ہے مولاعلی ؑ نے اولاد کی تربیت میں عورت کے کردار کوبہت ہی اچھے انداز میں بیان کیا ہے(۱) اگر عورت نہ ہو تو اولاد کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہے اولاد کے بد اخلاق ،بد کردار ہونے کا خطرہ ہے عورت ہی وہ ہستی ہے جو اولاد کو گمراہی کے دلدل سے بچاتی ہے اور ہدایت کے راستے کی نشاندہی کرتی ہے۔

اجتماع میں عورت کا مقام

        مردو عورت دونوں حیات انسانی کی ضروریات کو حاصل کرنے میں مساوی ہیں قرآن کریم فرماتا ہے{بعضکم من بعض}(۲)یعنی اے انسانوں تم بعض ،بعض سے ہواور تمہاری وجود نسخ میں کوئی فرق نہیں ہے اس بنا پر عورت بھی مرد کی طرح مستقل طور پر کام، ارادہ،و زندگی پراختیار رکھتی ہے اور ان کاموں کا نقصان وفائدہ خود انہیں سے مربوط ہے ملاحظہ مرد و عورت قرآن کے مطابق برابر و مساوی ہیں اور اجتماع میں شرکت کے عنوان ہے ملکہ سباء کو یاد کیا ہے کہ ملک کے امور کواجراء کرتی تھیں انہیں عقلمند،عورت کے عنوان سے معرفی کراتی ہے (۳)جناب شعیب کی بیٹیوں کو بھی اس طرح یاد کیا ہے کہ اجتماعی کاموں میں شرکت کرتی تھیں قرآن سیاسی کاموں میں مثلا محبت،ہجرت،امر بہ معروف و نہی از منکر ،مباہلہ(۴۔۵۔۶۔۷) وغیرہ میں مرد وعورت کا ایک خاص صورت میں تذکرہ کیا ہے ۔قرآن کریم عورتوں کی کسب وتلاش اقتصادی کو محترم شمار کیاہے(۸)اور ان کو صاحب ارث قرار دیا ہے (۹)اور عورت کو دو چیزوں (رخصت)کے ذریعے امتیاز بخشا ہے ۔عورت کا مقام ،کاشت کاری کی طرح ہے کہ نوع انسانی اس کے وسیلہ سے رشدو نمو پاتی ہے اور انکی بقا (انسانوں کی)ان سے وابستہ و مربوط ہوتی ہے یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن عورت کو بہتر کیلئے کمال و رشد تک پہونچنے کیلئے عورت کو زمینہ جانتا ہے اور اسے فراہم کرنے والی بھی خود عورت ہوتی ہے اور مرد بہت کم اس کام میں شرکت (دخالت)کرتا ہے ۔

        عورت کا وجود مطافت و حساسیت پر منحصر ہے اسی لئے مولا علی ؑ فرماتے ہیں کہ المرأۃ ریحانۃ اور اس کی یہ حالت (کیفیت)ا سکے اموال واجتماعی وظائف پر بھی اثر انداز ہوتی ہے یعنی معلوم یہ ہوا کہ عورت بھی تمام احکام عبادی و حقوق اجتماعی میں مرد کے ساتھ شریک ہے جس طرح مرد استقلال رکھتا ہے عورت بھی صاحب استقلال ہے و عورت کی عظمت و مقام اس کے ماں ہونے کی بنا پر ہے۔

        عورت کا ماں ہونا ہی اس کی ارزش و اہمیت پر دلالت کرتا ہے اور اس کے مقام کو بناتا ہے ان آیات و روایات کے علاوہ بھی بشمار آیات قرآنی و روایات موجود ہیں کہ جن کے ذریعے ہم استدلال کرسکتے ہیں اور عورت کے مقام کو بیان کرسکتے ہیں۔

فہرست منابع

۱۔قرآن کریم      

 ۲۔نہج البلاغہ ،سید رضی ترجمہ:علامہ جوادی

۳۔حکمت نظری وعملی در نہج البلاغہ آیۃ اللہ جواد املی    

۴۔درسھائی از نہج البلاغہ ،ایۃ اللہ منتظری ج۱

۵۔مقام زن از دیدگاہ نہج البلاغہ ،دکتر سید جواد مصطفوی 

 ۶۔زن از دیدگاہ نہج البلاغہ فاطمہ علائی رحمانی

۷۔روان شناسی زن در نہج البلاغہ مریم معین الاسلام 

 ۸۔زن ،عقل،ایمان ،مشور؟دکتر کبری خزعی

۹۔برنامہ ریزی رابہردی مسائل زنان در نہج البلاغہ سیمیندخت بھزادپور

۱۰۔دانسنامہ امام علی ؑ علی اکبر استاد ج۵  

۱۱۔نہج البلاغہ امام علی ؑ،دکتر اس اللہ مبشری

۱۲۔نہج البلاغہ فیض الاسلام

مقالہ نگار :تسکین فاطمہ حیدری 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button